الفاظِ سلام کی تعریف وتنکیر

(لفظ سلام ال کے ساتھ اور ال کے بغیر)

 

از: مولانامحمد تبریز عالم قاسمی

استاذ دارالعلوم حیدرآباد

 

قرآن کریم کی متعدد آیات میں سلام کے دونوں صیغے: یعنی السلام الف لام کے ساتھ اور سلامٌ بغیر الف لام کے آئے ہیں؛ اِسی طرح احادیث میں اکثر وبیشتر مواضع میں لفظ سلام معرفہ آیا ہے،نکرہ بہت کم آیاہے(سلام کے بارے میں صحیح تلفظ السلام علیکم ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی پر عمل پیرا تھے، سلامٌ علیکم کہنا درست ہے؛ البتہ یہ شیعوں کا شعار بتایاجاتا ہے؛ اس لیے سلامٌ علیکم کہنے سے احتراز کرنا چاہیے، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: ۳۰۰۰۱) ، اِسی بنا پر فقہاء نے کہا ہے کہ لفظِ سلام کی تعریف وتنکیر دونوں درست ہیں؛ لہٰذا سلامٌ علیکم اور السلام علیکم دونوں کہنا جائز ہے؛ لیکالبتہ السلام علیکم کہنا افضل اور بہتر ہے۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

ولو حذف اللام، فقال: سلامٌ علیکم أجزأ، قال اللہ تعالی: والملائکة یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم (الرعد:۲۳) وقال تعالی: فقل سلام علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمة (الأنعام:۵۴) وقال تعالی: سلام علی نوح في العالمین (الصافات:۷۹) إلی غیر ذلک؛ لکن باللام أولیٰ؛ لأنھا للتفخیم والتکثیر وثبت في حدیث التشھد السلام علیک أیھا النبي (فتح الباري:۱۳/۷)

یعنی الف لام کے حذف کے ساتھ بھی جائز ہے؛ لیکن الف لام کے ساتھ اولیٰ اور افضل ہے؛ کیوں کہ الف لام میں معنی کی زیادتی اور کثرت ہے، اِس صورت میں جنسیت واستغراق مراد ہوگا اور سلامتی کی ہر نوع اور جنس اِس دعا میں آجائے گی اور تَشَہُّد جو نماز میں مشروع ہے ،اُس میں بھی الف لام کے ساتھ السلام علیک ہے۔

علامہ شامی لکھتے ہیں:

لو نَوَّن المجرد من أل کما ھو تحیة الملائکة لأھل الجنة، یجب الرد؛ فیکون لہ صیغتان

یعنی اگر کسی نے ال کے بغیر سلامٌ نکرہ استعمال کیا تو جواب دینا واجب ہے؛ کیوں کہ یہ فرشتوں کا، اہلِ جنت کو سلام کرنے کاطریقہ ہے؛ لہٰذا سلام کے دو صیغے ہوئے۔(ردالمحتار:۹/۵۹۶)

السلام علیکم اور سلامٌ علیکم کا ایک فرق

 آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں السلام علیکم کہنا مسنون ہے اور دنیا سے گذرنے کے بعد بغیر الف لام کے سلامٌ علیکم کا لفظ مسنون ہے، زیارتِ قبور کا جو کلمہ قرآن مجید میں مذکور ہے، وہ بھی سلامٌ علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدّار آیا ہے اور فرشتے جب اہلِ جنت کا استقبال کریں گے اُس وقت بھی یہ لفظ اِسی عنوان سے آیا ہے، سلامٌ علیکم طبتم فادخلوھا خالدین اور یہاں بھی اہل اَعراف اہلِ جنت کو اِسی لفظ کے ساتھ سلام کریں گے۔(معارف القرآن: ۳/۷۶۸)

ایک غلط رواج

یادرہے کہ سلام کے مسنون صیغے صرف دو ہیں: السلامُ علیکم (شروع میں الف لام اور میم پر پیش) اور سلامٌ علیکم (شروع میں ا لف لام کا حذف اور میم پر تنوین) اس کے علاوہ آپ جتنے صیغے، سلام کے بولیں، وہ سب غیر مسنون ہوں گے۔

آج خصوصاً عجم میں جہاں عربی اور عربی گرامر سے ناواقفیت عام ہے، یہ رواج عام ہے کہ لوگ السلامُ علیکم کی جگہ سَلَامْ علیکم کہتے ہیں یعنی سلام کے میم کو ساکن کر کے بولتے ہیں، در مختار میں ہے:

أنہ لا یجب رَدُّ ”سلامْ علیکم“ بجزم المیم یعنی ایسے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، اس کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں:

ثم رأیتُ في الظھیریة: ولفظ السلام في المواضع کلھا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین وبدونِ ھذین کما یقول الجُھّالُ، لا یکونُ سلاماً؛ لمخالفتہ السنة التي جائت بالترکیب العربي (الرد مع الدر: ۹/۵۹۶)

یعنی السلام علیکم یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے شروع میں الف لام اور اخیر میں پیش ہے، حدیث میں ایسے ہی وارد ہے، اب اگر یوں کہیں ”سلامْ علیکم“ میم کے سکون کے ساتھ تو اس صورت میں ایک تو شروع سے الف لام حذف ہوگئے، دوسرے جب اسم پر الف لام نہ ہو تو عموماً اُس کے اخیر میں تنوین آتی ہے، اور یہاں وہ بھی نہیں، تو یہ نہ صرف عربی قواعد کے خلاف ہے؛ بلکہ الفاظِ حدیث کے موافق بھی نہیں؛ لہٰذا یہ مسنون نہیں ہے؛ بلکہ بقول علامہ شامی: ایسے سلام کرنے والے ناواقف اور جاہل ہوتے ہیں، اور ایسا عموماً بے توجہی اور جلد بازی کی وجہ سے ہوتا ہے؛ اِس لیے اس پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، خود بھی السلام علیکم کہیں اور دوسروں کو بھی بتائیں۔

چند اور غلط صیغے: (۱) سَلَامْ لِیکُم (۲) سَلَامَا لِیکُم (۳) السلامٌ علیکم (۵) السام لیکم (۶) السام علیکم (۷) سام علیکم (۸) سام لیکم (۹) السلامْ عَلِیکُم (میم کا سکون اور علیکم میں لام کے زیر کے ساتھ) (۱۰) السلام ألَیکم

یہ سب سلام کے غلط اور غیر مسنون صیغے ہیں، جو ناواقفیت کی وجہ سے لوگ بول دیتے ہیں، علامہ شامی کا فیصلہ یاد رکھیں ولفظ السلام في المواضع کلھا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین، وبدون ھذین کما یقول الجھال، لا یکون سلاماً

لفظ سلام ہر جگہ السلامُ علیکم یا سلامٌ علیکم ہے، اِن دونوں الفاظ کے علاوہ جتنے الفاظ ہیں، وہ سب مسنون سلام نہیں ہیں۔

سلام کے موقع پر ”علیک السلام“ کہنا

ابتداے سلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ الفاظ السلام علیکم یا السلام علیک ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداءِ سلام میں علیک السلام یا علیکم السلام کو ناپسند فرمایاکرتے تھے، حضرت جابر بن سُلیم رضی ا للہ عنہ کہتے ہیں:

میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو یوں سلام کیا، علیک السلامُ یا رسول اللہ! (آپ نے جواب نہیں دیا) اور کہا: لا تَقُل: علیک السلام؛ فإن علیک السلام تحیة الموتیکہ علیک (شروع میں) مت کہا کرو، یہ تو مُردوں کا سلام ہے۔(ابوداوٴد، رقم: ۵۲۰۹)

مسئلہ: سلام کا آغاز علیک السلام یا علیکم السلام کے ذریعہ مکروہ ہے۔ (عمدةالقاری: ۱۵/۳۴۶)

مسئلہ: اِس طرح سلام کرنا،مسنون طریقہ نہیں ہے؛ لہٰذا اِس کا جواب دینا ضروری نہیں؛ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جواب دیتے، پھر ادب سکھلاتے؛ لہٰذا اس کا سلام نہ ہونا راجح ہے۔ (ردالمحتار: ۹/۵۹۶)

لیکن علامہ عینی کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی نے آغاز ہی میں لا علمی کی وجہ سے ”علیکم السلام“ کہہ دیا تو اگر چہ ایسا کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اُسے جواب دے دینا چاہیے، اِس رائے کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے، او رعدمِ جواز کی رائے کو ”قیل“سے بیان کیا ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)؛ چناں چہ ترمذی کی روایت میں حضور کا بعد میں جواب دینا ثابت ہے۔(رقم الحدیث: ۲۷۲۱)

مسئلہ: اگر صورتِ مذکورہ میں کوئی واو کا اضافہ کرکے وعلیکم السلام کے ذریعہ سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اِس لفظ میں، ابتداء ًا سلام بننے کی صلاحیت ہی نہیں؛ لہٰذا یہ سلام ہی نہیں ہے۔(رد المحتار:۹/۵۹۶)

اس کی مزید تفصیل ”رموزِ سلام“ کے تحت آئے گی، ان شاء اللہ۔

سلام کے جواب میں علیک السلام یا علیکم السلام کہنا ایک علمی بحث

السلام علیکم کا مسنون جواب وعلیکم السلام یا وعلیک السلام ہے؛ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اور یہی لوگوں میں رائج ہے؛ لیکن فقہاء نے اِس موقع پر یہ بھی گفتگو کی ہے کہ اگر کسی نے، جواب میں بغیر واو کے علیکم السلام کہہ دیا تو یہ جوابِ سلام ہوگا یا نہیں؟ یہ ایک علمی بحث ہے، شائقینِ علم وفن کے لیے، سپرد قرطاس کی جارہی ہے۔

اس سلسلے میں دورائے ہیں: پہلی رائے یہ ہے کہ ”علیکم السلام“ بحذف الواو ،سلام کا جواب نہیں بن سکتا ،اور نہ ہی اس سے جوابِ سلام کا فریضہ ساقط ہوگا․ اِس رائے کی بنیاد تین دلیلوں پر ہے: (۱) اِس طرح جواب دینا مسنون جوابِ سلام کے خلاف ہے (۲)ایسی صورت میں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ علیکم السلام کہنے والے نے سلام کا جواب دیا ہے یا خود ہی سلام کیا ہے؛ کیوں کہ اس صیغے میں سلام او رجواب ِسلام: دونوں کی گنجائش ہے: (۳) تیسری دلیل وہ حدیث ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا: إذا سلَّم علیکم أھل الکتاب، فقولوا: ”وعلیکم“ یعنی اہل کتاب تمہیں سلام کردیں تو جواب میں”وعلیکم“ کہہ دیا کرو(مسلم: ۲۱۶۳، باب النہی عن ابتداء أہل الکتاب) طرزِاستدلال یوں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُن اہل کتاب کے سلام کے جواب میں ”وعلیکم“ (باثبات الواو) کہنے کا حکم دیا ہے جو کبھی السلام علیکم کے بجائے السام علیکم ( تم پر موت ہو) بھی کہہ دیا کرتے تھے، تو مسلمان کے سلام کے جواب میں تو وعلیکم السلام کہنا بدرجہ اولیٰ لازم اور ضروری ہوگا۔

دوسری رائے اِس سلسلے میں یہ ہے کہ جیسے وعلیکم السلام (واو کے ساتھ)صحیح ہے، ویسے ہی علیکم السلام(بلا واو)بھی درست ہے، دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ھَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ إِبْرَاھِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَالُوا سَلَاماً قَالَ سَلَامٌ (الذاریات: ۳۴) قال سلام کا مطلب ہے سلامٌ علیکم،دیکھیے سلام کے جواب میں وَسَلام نہیں ہے؛ بلکہ صرف سلامٌ ہے، دوسری دلیل خلقِ آدم کا قصہ ہے، حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام نے فرشتوں کو سلام کیا تو فرشتوں نے کہا: السلام علیک ورحمة اللہ (بخاری: ۳۳۲۶،باب خلق آدم) دیکھیے یہاں واوٴ نہیں ہے، تیسری یہ ہے کہ قرآن میں ہے وَإِذَا حُیِّیْتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْھَا أَوْ رُدُّوھَا(النساء: ۸۶) اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ، جواب دینے والا دو باتوں کا مُکلَّف ہے: یا تو جواب بالمثل دے یا اُس سے اچھا جواب دے، پہلا عدل ہے اور دوسر افضل، اب جواب دینے والے نے علیکم السلام کہہ دیا تو یہ جواب بالمثل اور عدل ہے؛ لہٰذا صحیح ہے (خلاصہ زاد المعاد: ۲/۳۸۵)

فیصلہ: علامہ ابن القیم نے ان دونوں رایوں کو ذکر کرنے کے بعد، یہ بحث ذکر کی ہے کہ یہودیوں کے سلام کے جواب میں احادیث میں وعلیکم ہے یا صرف علیکم ہے؟ روایتیں دونوں طرح کی ہیں، ابن القیم کا رجحان اِس جانب ہے کہ اثباتِ واو، والی روایتیں صواب اور احسن ہیں؛ غالباً اِس سے یہی ثابت کرنا ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا زیادہ بہتر اور سنت کے قریب ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶، نقلا عن شرح النووی) تاہم جائز وعلیکم السلام بھی ہے؛ کیوں کہ ایسی بحث جب اہل کتاب کے جواب کے سلسلے میں کی جاسکتی ہے تو یہی حکم مسلمان کے سلام کے جواب کا بھی ہونا چاہیے۔

چند مسائل

۱- سلام کے جواب کا افضل اور اعلیٰ درجہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ ہے اور صرف ”وعلیکم السلام“ کہنا بھی جائز ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)

۲- کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”علیکم“ کہا تو یہ سلام کا جواب نہیں سمجھا جائے گا۔(حوالہ سابق)

۳- کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”وعلیکم“ کہا تو دونوں قول ہیں: جواب ہوجائے گا، دوسرا قول یہ ہے کہ کافی نہیں ہوگا۔(ایضا)

شریعت میں الفاظ بھی مقصود ہیں

حضرت جابر بن سلیم رضی ا للہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ”علیک السلام“ کہنے کی ممانعت آئی ہے؛ اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سلام میں الفاظِ منصوصہ مسنونہ کی پیروی ضروری ہے۔

اِس اِجمال کی تفصیل یہ ہے کہ الفاظِ شرعیہ میں ا پنی طرف سے اضافہ ،کمی اور ردّو بدل جائز نہیں؛ بلکہ اِس میں نص کی اِتّباع ضروری ہے، بطور دلیل کچھ روایات پڑھیے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب تم اپنی خواب گاہ میں آوٴ تو اِس طرح وضو کرو، جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاوٴ اور یہ دعا پڑھو:

اللّٰھم أسْلَمتُ وَجْھِي إلیک، وفَوَّضتُ أَمْرِي إلیک، وأَلْجأتُ ظَھْري إلَیک، رَغْبَةً ورَھْبَةً إلَیک، لا مَلْجَأَ ولا مَنْجیٰ مِنْکَ إلاَّ إِلَیکَ آمَنْتُ بکتابک الذي أنْزَلتَ وبِنَبِیِّکَ الذي أرْسَلْتَ

اگر تم اسی رات فوت ہوئے تو مسلمان ہوتے ہوئے فوت ہوگے؛ لہٰذا تم اِن کو اپنے آخری کلمات بناوٴ، میں نے کہا: میں تو وَبِرَسُولک الذي أرسلتَ یاد کرتا ہوں(بخاری کی دوسری روایت میں ہے :کہ میں نے یہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دُہرائے، جب میں نے وَبِرَسُولک پڑھا) تو آپ نے فرمایا: نہیں، وبِنَبِیِّک الذي أرسلتَ پڑھو۔ (بخاری، رقم: ۵۹۵۲، الدعوات)

دیکھیے رسول اور نبی میں، عام علماء کے نزدیک تَرادُف ہے یا بعض کے نزدیک رسول خاص ہے، یعنی معنی میں اعلیٰ ہے نبی سے؛ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء کو اِس طرح پڑھنے سے منع فرمادیا۔

حضرت نافع کہتے ہیں: ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس چھینکا اور کہا:

الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ، تو ابن عمر نے کہا میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں؛ لیکن یہ طریقہ نہیں ہے (کہ الحمد للہ کے ساتھ والسلام کو ملایا جائے)ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس موقع پر یہ تعلیم دی ہے کہ ہم الحمد للہ علی کل حال کہیں۔(ترمذی، رقم: ۲۷۳۸)

اِن نُصوص سے یہ بات نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ الفاظِ شرعیہ کی پیروی ضروری ہے، اِس کے اندر کمی بیشی جائز نہیں؛ لہٰذا سلام اور جوابِ سلام کے وہی الفاظ معتبر ہوں گے، جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں، اور اگر سلام کے الفاظ بالکلیہ ترک کردئیے جائیں اور اُن کی جگہ دوسرے الفاظ: عربی یا علاقائی زبانوں کے اختیار کیے جائیں تو وہ اسلامی تحیہ نہیں ہوگا، اسلامی سلام وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابتایا ہوا ہے اور عربی میں ہے؛ ہاں اگر اسلامی سلام کے بعد، علاقائی کلماتِ ملاقات بولے جائیں، جیسا کہ بولا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔

مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

اس حدیث (اس سے مراد وہ روایت ہے، جس میں ہے کہ حضرت جابر بن سُلیم نے ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں سلام کیا تھا: علیک السلام یا رسول اللہ! تو آپ نے منع فرمادیا تھا، (ابوداوٴد، رقم:۵۲۰۹) سے ایک اور بنیادی بات معلوم ہوئی، جس سے آج کل لوگ بڑی غفلت برتتے ہیں، وہ یہ کہ احادیث سے معنی، مفہوم اور روح تو مقصود ہے ہی؛ لیکن شریعت میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے الفاظ بھی مقصود ہیں، دیکھیے ”السلام علیکم“ اور ”علیکم السلام“ دونوں کے معنی تو ایک ہی ہیں، یعنی تم پر سلامتی ہو؛ لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن سُلیم رضی اللہ عنہ کو پہلی ملاقات ہی میں اِس امر پر تنبیہ فرمائی کہ سلام کرنے کا سنت طریقہ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ ”السلام علیکم“ کہو، ایسا کیوں کیا؟ اِس لیے کہ اس کے ذریعہ آپ نے امت کو یہ سبق دے دیا کہ ”شریعت“ اپنی مرضی سے راستہ بتا کر چلنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ ”شریعت“ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نام ہے۔

آج کل لوگوں کی زبانوں پر ا کثر یہ رہتا ہے کہ شریعت کی روح دیکھنی چاہیے، ظاہر اورالفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، معلوم نہیں لوگ الفاظ کے بغیر روح تک کیسے پہنچ جاتے ہیں، اُن کے پاس کون سی ایسی خورد بین ہے، جس میں اُن کو روح نظر آتی ہے؛ حالاں کہ شریعت میں روح کے ساتھ ظاہر بھی مطلوب اور مقصود ہے، سلام ہی کو لے لیں کہ آپ ملاقات کے وقت ”السلام علیکم“ کے بجائے اردو میں یہ کہہ دیں ”سلامتی ہو تم پر“ دیکھیے معنی اور مفہوم تو اِس کے وہی ہیں جو ”السلام علیکم“ کے ہیں؛ لیکن وہ برکت، وہ نور اور اتباعِ سنت کا اجر وثواب، اِس میں حاصل نہیں ہوگا، جو ”السلام علیکم“ میں حاصل ہوتا ہے۔(اصلاحی خطبات: ۶/۱۸۶)

وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:

ویکرہ تغییر صیغة السلام المشروعة ھکذا بمثل قول بعضھم: ”سلام من اللہ“ فذلک بدعة منکرةصیغہ سلام کی تبدیلی مکروہ ہے، مثلاً کچھ لوگوں کا سلام من اللّٰہ کہنا بدعت اور منکر ہے۔(الفقہ الإسلامي۴/۲۶۸۵)

مسنون سلام ”السلام علیکم“سے ہی ادا ہوگا

آداب عرض یا اِسی قسم کے دوسرے الفاظ، شرعی اسلامی تحیہ کے قائم مقام نہیں ہوں گے، اور سنتِ سلام ادا نہ ہوگی۔ (کفایت المفتی:۹/۹۰)

(باقی)

$ $ $

 

---------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد:100 ‏، ذی الحجہ 1437 ہجری مطابق ستمبر 2016ء